رات بارش نے میری چھت پہ دستک لگائے رکھی
تھا لُطف چھنکار میں رات موم بتی کمرے میں جلائے رکھی
نیند رُوٹھ کے میری انکھوں سے مُنتظر رہی پھرسے آنے کی
ہنٹوں پہ رہا رُخسار اُسکا تصویر سینے سے اُسکی لگائے رکھی
کبھی خود پہ جو مجھ کو رشک آنے لگا ذرا ذرا
کیوں ہے ؟ کیسے ہے؟ بات دل کی دل میں چُھپائے رکھی
یوں ہی گُزر گیا رات کا اک پہر کہ خود کو دلاسا دینے لگا
شب بھر بارش نے میری چھت پہ تِپ تِپ لگائے رکھی
چھوڑ کر یہ تماشا فِکرے آخرت پہ جب میرا نفیس دھیاں گیا
چھوڑ دی دُنیا کی ًخواہش تُوبا تُوبا ساری رات لگائے رکھی