رات عجب آسیب زدہ سا موسم تھا
اپنا ہونا اور نہ ہونا مبہم تھا
ایک گل تنہائی تھا جو ہمدم تھا
خار و غبار کا سرمایہ بھی کم کم تھا
آنکھ سے کٹ کٹ جاتے تھے سارے منظر
رات سے رنگ دیدۂ حیراں برہم تھا
جس عالم کو ہو کا عالم کہتے ہیں
وہ عالم تھا اور وہ عالم پیہم تھا
خار خمیدہ سر تھے بگولے بے آواز
صحرا میں بھی آج کسی کا ماتم تھا
روشنیاں اطراف میں زہراؔ روشن تھیں
آئینے میں عکس ہی تیرا مدھم تھا