راہ طلب میں کون کسی کا اپنے بھی بیگانے ہیں
چاند سے مکھڑے رشک غزالاں سب جانے پہچانے ہیں
تنہائی سی تنہائی ہے کیسے کہیں کیسے سمجھائیں
چشم و لب و رخسار کی تہ میں روحوں کے ویرانے ہیں
اف یہ تلاش حسن و حقیقت کس جا ٹھہریں جائیں کہاں
صحن چمن میں پھول کھلے ہیں صحرا میں دیوانے ہیں
ہم کو سہارے کیا راس آئیں اپنا سہارا ہیں ہم آپ
خود ہی صحرا خود ہی دوانے شمع نفس پروانے ہیں
بالآخر تھک ہار کے یارو ہم نے بھی تسلیم کیا
اپنی ذات سے عشق ہے سچا باقی سب افسانے ہیں