یقین نام ہے عبادت کا
ایمان اور عقیدت کا
جو دل میں زرا بھی شبہ ہو
تو دل ایماں سے خالی ہے
بھروسہ ٹوٹ جاے تو
واپس جُڑ بھی سکتا ہے
یقین جب ٹوٹ جاے تو
عبادت فاسد ہو جاتی ہے
عقیدہ فنا ہو جاتا ہے
نہیں ہے بھوکا وہ تیری
عبادتوں کا نمازوں کا
نہ وہ محتاج ہے تیری
تعریفوں کا ,تیرے لفظوں کا
یہ اُس کی خُو ہے دیکھو
وہ بِن مانگےبھی دیتا ہے
وہ بِن بولے بھی سنتا ہے
اورکیسے بیان ہو سکتی ہے
اُس کی ذات لفظوں میں
جہاں اُن لفظوں سے عاری ہے
جو شانِ رب کو سماء جائیں
بہت محدود لفظوں میں
کتنا کوئ بیان کرے
اُس کی ذاتِ اکبر کو
تیری محدود عقل سے
تیرے محدود فہم سے بھی
بہت اعلیٰ ہے اُس کی ذات
بہت معتبر ہے اُس کی ذات