خدا کے فضل سے پیغامِ کردگار آیا
جو بے قرار تھے اب تک اُنھیں قرار آیا
کچھ اس ادا سے وہ جانِ گل و بہار آیا
کہ پھول ہی نہیں کانٹوں پہ بھی نکھار آیا
وہ جن کی خودسری صدیوں پہ تھیں محیط مگر
نگاہِ لطف و کرم سے انھیں سنوار آیا
دلوں پہ نقش نہ رہ پایا کوئی نفرت کا
کچھ اس طرح سے وہ تقسیم کرتا پیار آیا
خلوص و عدل و مساوات و نظم و ضبط و وفا
جہاں میں بانٹتا محبوبِ کردگار آیا
نظامِ خُلق و مروّت تھا ہر جگہ برہم
اُسے سنوارنے رب کا وہ شاہ کار آیا
شبِ خموشِ لحد میں تجلّیاں ہوں گی
جو بے نقاب یہاں روئے تابدار آیا
انھیں کا عشق ہے مشعل فروزِ قلب و نظر
وہ خوش نصیب ہے جس دل میں اُن کا پیار آیا
نہ بے ضمیری مُشاہدؔ کے دل میں آے کبھی
مٹا دیں شیشۂ دل پر جو یہ غُبار آیا