اپنی جوانی کھو دیا ہم نے
اب زندگی میں باقی بچا کیا ہے
ریٹائر ہو جائنگے یونہی ہم بھی
اب پروموشن میں رکھا کیا ہے
عزت سے بقیہ دن بھی پورے ہوجائے
چاپلوسی میں اب رکھا کیا ہے
ان سے انصاف کی توقع کیا رکھنا
نفسا نفسی کے دور میں ہمارا کیا ہے
اک عمر بغیر پروموشن کے گزاردی
اب جاتے دم اس میں رکھا کیا ہے
عمر بھر ہم اپنی خودی کو بلند کرتے رہے
خود اگر بلند نہ ہوئے تو اس میں چارہ کیا ہے
عمر یونہی گزار لیا تم نے
اب بڈھاپے میں تڑپنا کیا ہے
ان سے وفا کی امید کیا رکھنا
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
کروں شکوہ بڑوں سے یا اپنی قسمت سے
ہم نہیں جانتے کہ حقیقت کیا ہے
پوچھ لو ان بڑوں سے تم
ان غریبوں سے دشمنی کیا ہے
سارے عہدوں نے دفن ہونا ہے
چند سانسوں کی دنیا میں رکھا کیا ہے
وہاں منکر نکیر کبھی نہ پوچھے گا
مرنے والے تیرا مرتبہ کیا ہے
کچھ دنوں کی بات ہے انہیں خوش ہو لینے دو
پھر خداوند خود پوچھے گا کہ تم نے ان کے ساتھ کیا کیا ہے
ہر اوپر والے سے اللہ پوچھ بیٹھے گا
تم نے اپنے ماتحتوں کے ساتھ کیا کیا ہے
چھوڑدی ہم نے ہر معاملہ رحمان کے کورٹ میں
دنیا کےعدالتوں سے ہمیں لینا کیا ہے
ایسوں ویسوں کو تم نے بٹھا دیا سر پر
چمچہ گیری کے سوا انکو آتا کیا ہے
اک طرف ہزاروں میں تو اک طرف لاکھوں میں
اگر یہی انصاف ہے تو نا انصافی کیا ہے
یا الہی تیرے نام پہ بننے والے اس دیس میں
تیرے غریب اور مظلوم بندوں کی اوقات کیا ہے
غنڈے بدمعاش،چور ڈاکو مل گئے ہیں آپس میں
تیرے شریف بندوں کی اب عزت کیا ہے
سیاست پہ وڈیروں،چوہدریوں،سرداروں اور خانوں کا ہے قبضہ
لوگ پوچھتے ہیں مجھ سے تیرے ملک کی جمہوریت کیا ہے
دین اسلام کو کردیا سلامت سے خالی
ایسے مفتیوں کے لئے اسلام کا فتوی کیا ہے
دین کی شکل ہی بگاڑدی ملاؤں نے
ایسے بے دین ملاؤں کی سزا کیا ہے
اللہ کی کتاب کے واضح فرماں کو یہ مانتے نہیں
تم ہی بتاؤ ان سے بڑھ کر کافر کیا ہے
وعتصمو بحبل اللہ جمیعاولا تفرقو کہکر
رب کے اس فرماں کے آگے مفتی کیا ہے