دیکھوں جو کبھی خواب میں سرکار کی صورت
دل میرا چمک اُٹّھے انوار کی صورت
وحشت بھی تھی نفرت بھی ذہنوں میں ہر اک سمت
آقا نے نکالی حسیٖں کردار کی صورت
توحید کے انوار لیے آئے شہِ دیں
عالم میں بنے رحمتِ غفّار کی صورت
بس ایک تصور سے فقط شاہِ دنا کے
سب مٹ گئی اندوہ کے بار کی صورت
وہ جن میں ہوئے جلوہ فگن سیدِ عالم
میں دیکھ لوں اک بار انھیں غار کی صورت
میں سانس بھی لوں تیز تو یہ بے ادبی ہے
کس طرح نکالوں یہاں اظہار کی صورت
یاربِّ جہاں کلکِ مُشاہدؔ سے ہمیشہ
ہر لمحہ کھلے نعت کے گل زار کی صورت