رستوں کے مت احساں اٹھا، رختِ سفر کو بھول جا
رمزِ فقیری ہے یہی، منزل کا سودا پھونک دے
انسان کو انساں سمجھ، سب کنبہِ رحماں سمجھ
مندر کو مت دیوار کر، مسجد مصلیٰ پھونک دے
اِس کھیل میں شامل نہ ہو، پُرعیب رہ، کامل نہ ہو
دوزخ میں رکھ فردوس کو، دنیا و عقبٰی پھونک دے
ہے پاک تر از داد تُو، تشہیر سے آزاد تُو
لذت کشِ فریاد تُو، غوغائے وَہ وا پھونک دے