رسم وآداب جدا، عفتِ پندار جُدا
ہر قدم پر ہے مرے سامنے دیوار جدا
کنجِ مژگاں سے ستاروں کو رہائی بھی نہیں
اور اُجالوں کو بکھر جانے پہ اصرار جدا
اب کے موسم سبھی کھیتوں میں شرربوئے گئے
اور ہوائیں ملیں شعلوں کی طرفدار جُدا
کوئی پہچان کسی خواب کی رہنے دیتے
آئنوں سے ہوتے کیوں آئینہ بردار جدا
گرنے والوں کو بہانوں کی ضرورت ہی نہ تھی
اور یہاں عذر بھی ملتا رہا ہر بار جدا
میری دنیا میں مجھے تو بھی تو آکر دیکھے
خوف کا بوجھ الگ درد کا بازار جدا
خواب کیا دیکھتی ہو خود ہی کسی خواب سی تھی
رنگ آنسو کا جدا، رنگ گل و خار جدا