رنگ خوش بو میں اگر حل ہو جائے
وصل کا خواب مکمل ہو جائے
چاند کا چوما ہوا سرخ گلاب
تیتری دیکھے تو پاگل ہو جائے
میں اندھیروں کو اجالوں ایسے
تیرگی آنکھ کا کاجل ہو جائے
دوش پر بارشیں لے کے گھومیں
میں ہوا اور وہ بادل ہو جائے
نرم سبزے پہ ذرا جھک کے چلے
شبنمی رات کا آنچل ہو جائے
عمر بھر تھامے رہے خوش بو کو
پھول کا ہاتھ مگر شل ہو جائے
چڑیا پتوں میں سمٹ کر سوئے
پیڑ یوں پھیلے کہ جنگل ہو جائے