روح میں اتری دھوپ دل لگا جلنے
شمع کے ساتھ ساتھ وقت لگا پگھلنے
سناٹوں کے پہر میں ظلمت کی یہ وادی
وحشت کے لمحوں میں خوف لگا پلنے
چہرہ اسکا شہر میں پہچان بن جائے
خون بھرے ہاتھوں کو منہ پے لگا ملنے
قیامت کا ہے شور کچھ ناں سنائی دے
رستے ہوئے زخموں سے آسیب لگا ابلنے
بھوک اور فکر میں ڈوبے افلاس کے مارے لوگ
بٹا ہوا انسان ہر روز آگ پے لگا چلنے
بڑھتے ہوئے قدموں کو خوف ہے کٹ جانے کا
سمٹ گئیں سب سوچیں دل بھی لگا دھلنے