روز وحشت کوئی نئی مرے دوست
اس کو کہتے ہیں زندگی مرے دوست
علم احساس آگہی مرے دوست
ساری باتیں ہیں کاغذی مرے دوست
دیکھ اظہارئیے بدل گئے ہیں
یہ ہے اکیسویں صدی مرے دوست
کیا چراغوں کا تذکرہ کرنا
روشنی گھٹ کے مر گئی مرے دوست
ہاں کسی المیے سے کم کہاں ہے
مری حالت تری ہنسی مرے دوست
ساتھ دینے کی بات سارے کریں
اور نبھائے کوئی کوئی مرے دوست
اتنی گلیاں اگ آئیں بستی میں
بھول بیٹھا تری گلی مرے دوست
لازمی ہے خرد کی بیداری
نیند لیکن کبھی کبھی مرے دوست