درِ اشرف سے اک عالم یقیناً فیض پاتا ہے
تہی دامن جو آتا ہے وہ دامن بھر کے جاتا ہے
کچھوچھہ ہے تصوف اور شریعت کاحسیں سنگم
مَے عرفان جامِ شرع میں سب کو پِلاتا ہے
ہمیں تو اشرفی سرکار پر ہے ناز اے لوگو!
کہ بچّہ بچّہ نورِ مصطفیٰ سے جگمگاتا ہے
تمہیں دلبندِ زہر ا و علی ہم کس طرح بھولیں
رُخِ انوار اشرف دل کی نظروں میں سماتا ہے
بھلاسکتے نہیں ہم شفقتیں انوار اشرف کی
کہ اُن کا دنیا سے جانا ہمیں تو خوں رلاتا ہے
کرو تم عمر بھر دینِ متیں کی خوب ہی خدمت
شہِ انوار کا دنیا سے جانا یہ بتاتا ہے
ہمارے درد کا درماں رُخِ انوار اشرف ہے
دلِ پژمردہ جس کی یاد سے ہی مسکراتا ہے
ذرا دیدہ ورو! نصاف کی نظروں سے تم دیکھو
رُخِ انوار سے نورِ ولایت جگمگاتا ہے
مُشاہدؔ فیضِ چشتی قادری تُو خوب پائے گا
ثناے اشرفی میں جو قلم اپنا چلاتا ہے
عرض نمودہ: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی