رکھا سر پر جو آیا یار کا خط
گیا سب درد سر کیا تھا دوا خط
دیا خط اور ہوں قاصد کے پیچھے
ہوا تاثیر میں کیا کہربا خط
وہیں قاصد کے منہ پر پھینک مارا
دیا قاصد نے جب جا کر مرا خط
ہے لازم حال خیریت کا لکھنا
کبھی تو بھیج او نا آشنا خط
رہا ممنون کاغذ ساز کا میں
سنا دے گا اسے سب ماجرا خط
پتا ملتا نہیں اس بے نشاں کا
لیے پھرتا ہے قاصد جا بجا خط
رہی حسرت یہ ساری عمر بہرامؔ
نہ مجھ کو یار نے ہرگز لکھا خط