سر چٹخے کا سبب یاد آیا
وہ تری مار تھی‘ اب یاد آیا
گالیاں آپ کے منہ سے سن کر
آپ کا نام و نسب یاد آیا
بھاؤ پوچھا تھا جو کل آٹے کا
سنتے ہی ہم کو تو رب یاد آیا
قرض ہم اس کا چکاتے لیکن
“ جب وہ رخصت ہوا تب یاد آیا “
جیتے جی قرض جو اینٹھا اسنے
قبر مقروض پہ سب یاد آیا
بھوت جیسی تھی جو شکل افسر “
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا ‘
سر میں عاصی کے اٹھی ہیں ٹیسیں
جب ترا غیظ و غضب یاد آیا