میرے ہر لفظ میں مضمر ہے تیرا عکس و خیال
میری پرچھائی بھی لگتی ہے تیرا حسن و جمال
یوں تو دنیا کی ہر اک شئے پہ تصرف تیرا
جرم و عصیاں سے ہے محروم میرا دست سوال
مجھ کو واعظ کسی دوزخ سے ڈرا دیتا ہے
تیری رحمت کو وہ محدود کرے اس کی مجال
عشق احمد میں تڑپنے کا مزا کیا جانے
زاہد تنگ نظر سمجھے گا کیا ہجر و وصال
واسطہ رحمت عالم کا ‘صبا‘دیتا ہے
اس کی حالت پہ رحم کر دے کہ ہے رہ بہ زوال