ذرا سا وقت بدلا ہے ہوا سے دوستی نہ کر
تجھے اُونچا اُڑا کے یہ کہیں آخر گرائے گی
کبھی مت ریت پہ لکھنا کوئی حرفِ وفا ایسا
ہوا لفظوں کی اِس ترتیب کو آخر مٹائے گی
تجھے جلتے ہوئے خیموں پہ ہے اُمید کیا ایسی
سلگتی آگ کو آ کر ہوا زیادہ جلائے گی
عجب اُمید ہے دیکھو حبس میں اب پرندوں کو
مگر آندھی اگر آئی شجر سارے گرائے گی
بہت غلطی پہ ہیں بستی کے باسی اِس چراغاں میں
ہوا اپنے سفر میں تو دیے سارے بجھائے گی
عقیل ایسی کوئی یاری تجھے کیا راس آنی ہے
ہوا کی دوستی تو خاک ہی تیری اُڑئے گی