زرا میکدے کو بناؤ ساقی کہ پھر سے دم کی بہار ہو
مجھے شاید اس سے قرار ہو مرے درد و غم کا شکار ہو
میں جو چل پڑوں کبھی دشتِ عشق میں غنچہ بھی خس و خار ہو
مجھے تیز و تُند خُمار ہو کبھی جوش ہو کبھی زار ہو
یہاں بادہ کش رہیں موجزن، کبھی سست رو کبھی گام زن
رہے شورو غل سَرِ انجمن کوئی خوش قداں جو سوار ہو
وہ جو عشق میں رہے مبتلا جنہیں آشنائی کا شوق تھا
کریں آرزو وہ شکستہ پا کوئی تیر سینے کے پار ہو
مہ و مہر سا کوئی ہوبہو ، کوئی آتشیں کوئی خوبرو
رہے دم بدم مرے روبرو، کوئی ایسا اپنا بھی یار ہو