زرد چہرے کتاب لگتے ہیں
پنہاں دکھ بے حساب لگتے ہیں
عشق کی راہ کے مسافر کو
بعض کانٹے گلاب لگتے ہیں
دور منزل سراب لگتی ہے
اور رستے عذاب لگتے ہیں
گھیرلیتی ہے بے یقینی یوں
بیتے لمحے بھی خواب لگتے ہیں
سوچ لو تم سوال سے پہلے
سنگ بن کر جواب لگتے ہں
درد ملتا ہے راہ الفت میں
زخم بھی بے حساب لگتے ہیں
عشق کرتے ہیں جو حیا اب تو
شہر دل کے نواب لگتے ہیں