زمانے کو زمانے کی پڑی ہے
ہمیں وعدہ نبھانے کی پڑی ہے
یہ دنیا چاند پر پہنچی ہوئی ہے
تجھے لاہور جانے کی پڑی ہے
ذرا دیکھو ادھر میں جل رہا ہوں
تمہیں آنسو چھپانے کی پڑی ہے
فسانہ ہی حقیقت بن گیا ہے
حقیقت کو فسانے کی پڑی ہے
ابھی جو شعر لکھا بھی نہیں ہے
ابھی سے وہ سنانے کی پڑی ہے
ترے مہمان واپس جا رہے ہیں
تجھے مہمان خانے کی پڑی ہے
وہ تیرے دل میں آ بیٹھا ہے مومنؔ
تجھے دیوار ڈھانے کی پڑی ہے