زندگانی میں کٹھن وقت جہاں دیکھے ہیں
موسمِ گل میں چھپے دورِ خزاں دیکھے ہیں
قلب میں زہر بھرے اور لبوں پر مسکان
ہم نے ایسے بھی کئ شیریں زباں دیکھے ہیں
چشمِ بینا نہ سہی‛چشمِ بصیرت سے مگر
کتنے سینوں میں چھپے سوزِ نہاں دیکھے ہیں
اس گزرتے ہوئے ہر لمحے کی آواز کے ساتھ
زندگانی ترے قدموں کے نشاں دیکھے ہیں
دوش پر اپنے اٹھائے ہوئے گھر کتنے پھریں
بے مکانی کا گلہ کرتے بھی یاں دیکھے ہیں
تیرے ہونٹوں کی یہ مسکان فقط ایک فریب
غم کے سائے تری آنکھوں سے عیاں دیکھے ہیں
زیست کے سود و زیاں پر بھی نظر رکھ ہمدم
تونے ہیکل کے عبث عزم جواں دیکھے ہیں