زندگی کا کام گزرنا ہے گزر جائے گی
رضائے رب ہوئی تقدیر سنور جائے گی
کھرچ کے چاہے مٹانا تو ممکن بھی نہیں
دل کی دہلیز سے کیا ہر یاد اتر جائے گی
پھر سے بے چین ہوںاور نیند غائب میری
لگتا ہے شب اسکے تصور میں گذر جائےگی
بھولنا چاہوں اسکی یاد بہت مشکل ہے
ہر ایک بار نئے طور سے در آئے گی
آئینہ دل بھلے توڑ کے مرضی تو کری
روبرو آئے تو تصویر بکھر جائے گی
لاکھ دل غم میں اٹاہواور نین بھی خشک
گرد پھولوں کی تو شبنم سے اتر جائے گی