زندگی کے شمار سے نکلا
جو پرندہ قطار سے نکلا
توڑ کر دھڑکنوں کی زنجیریں
دل ترے انتظار سے نکلا
میں نے جس پر بھی اعتبار کیا
وہ مرے اعتبار سے نکلا
عمر کاٹیں گے کس سہارے پر
ہجر بھی اختیار سے نکلا
درد کے رنگ تھے کڑے اتنے
اشک چشمِ نگار سے نکلا
نامۂ وصل تیرا ہجر کی شب
میرے اک غم گسار سے نکلا
نسخہ غم سے نجات پانے کا
زہر کے اشتہار سے نکلا
شورشِ دہر کا ہر امر امـؔـر
کرسئ اقتدار سے نکلا