تو معرفت کا نور ہے تو علم کا چراغ ہے
تو حق کا پیامبر تو رحمتوں کا باغ ہے
تو نبوت کے آسماں کا اکبر ستارہ
تو بے کسوں ،مسکینوں کے دل کا سہارا
بخشش جو تیری آستاں سے منگتوں نے پائی
دی شاہوں کو بھی مات ہوئی ان کی رسوائی
تو لرزتے دلوں کو تسکیں پہنچائے
تو بھٹکے ہوئے آہو کو درندوں سے بچائے
تیرے در پہ جو گداگر کوئی آتا ہے
جھولی بھر کے وہ کرم کی جاتا ہے
تیرا ہی نام لب پہ پڑا ہے
تیرے ہی دم سے یہ گلشن ہرا ہے
زندہ ہے امید ایاز تیرے ہی دم سے
ٹوٹے ہوئے دل کو تیرا ہی آسرا ہے