ظلم و ستم کا تھا منظر میدانِ کربلا میں
زینبؒ کا تھا اُجڑا گھر میدانِ کربلا میں
رسمِ حنا کی مہندی ملا دی گئی خاک میں
قاسمؒ گرا تھا بکھر کر میدانِ کربلا میں
ننھی سکینہؒ ہائے بابا، بابا کہتی سو گئی
ہر صدا ہوئی بے اثر میدانِ کربلا میں
جنت کی بیٹیوں کو ستایا گیا زمین پہ
چھین لی گئی تھی چادر میدانِ کربلا میں
حسینؒ رہ گئے اکیلا بعدِ شہادتِ کنباء
نہ تھا خوف نہ کوئی ڈر میدانِ کربلا میں
بیٹھ کے کنارے ساگر ، پیاسے رہے تھے حسیناؒ
قید تھے سب یزیدِ جبر میدانِ کربلا میں
نہالؔ اُداسیاں تھی تھیں اُداس کچھ اِس قدر
سسکیاں آئیں لب سِی کر میدانِ کربلا میں