امن کے شہر میں دہشت کو بسایا کس نے
رونقیں چھین کر وحشت کو تھمایا کس نے
جنکی معصوم اداؤں پہ جہاں ہنستا تھا
ان ہی معصوم شگوفوں کو رلایا کس نے
جہاں ہر روز نئی خوشیاں و میلے لگتے
ان ہی گلیوں میں یہ غم سوگ منایا کس نے
جسکی شاموں سے اجالے بھی حسد کرتے تھے
ان کو تاریک لبادہ یہ اوڑھایا کس نے
دین اسلام جو رحمت ہے نشاں خیر کا ہے
اسکے دامن پہ سیاہ داغ لگایا کس نے
جن لبوں پر تھے یہاں گیت خوشی کے کل تک
ان پہ اس گریہ و ماتم کو سجایا کس نے
کل تک اڑتے تھے فضاؤں میں جو شہباز یہاں
موت کے جال میں اب انکو پھنسایا کس نے
کسطرح قتل ہوئے شہر میں خوشرنگ گلاب
ہار سے توڑ کر قبروں پہ سجایا کس نے
آگ کے شعلوں میں جب شہر کے بازار جلے
ان سے جلتے ہوئے چولہوں کو بجھایا کس نے
نوحہ خواں اب بھی ہیں اجڑے ہوئے بازار یہاں
پہلے لوٹا گیا پھر انکو جلایا کس نے
آگئے بن کے تماشائی منافق کتنے
بیکسی کا میری دربار سجایا کس نے
مکر اور فسق کا منظر نہیں یہ اور تو کیا
جرم ناکردہ میں اشہر کو پھنسایا کس نے