کتاب سادہ رھے گی کب تک ، کبھی تو آغاز باب ھوگا
جنہوں نے بستی اُجاڑ ڈالی ، کبھی تو اُنکا حساب ھوگا
سحر کی خوشیاں منانے والو ! سحر کے تیور بتارھے ھیں
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا عذاب ھوگا
وہ دن گئے کہ جب ھر ستم کو ادائے محبوب کہہ کے چُپ تھے
اُٹھے گی ہم پر جو اینٹ کوئ تو پتھر اُسکا جواب ھوگا
سُکونِ صحرا میں بسنے والو ! ذرا رُتوں کا مزاج سمجھو
جو آج کا دن سُکوں سے گزرا تو کل کا موسم خراب ھوگا