Add Poetry

سانس ان کے مریض حسرت کی رک رک کے چلتی جاتی ہے

Poet: قمر جلالوی By: Ali, Islamabad

سانس ان کے مریض حسرت کی رک رک کے چلتی جاتی ہے
مایوس نظر ہے در کی طرف اور جان نکلتی جاتی ہے

چہرے سے سرکتی جاتی ہے زلف ان کی خواب کے عالم میں
وہ ہیں کہ ابھی تک ہوش نہیں اور شب ہے کہ ڈھلتی جاتی ہے

اللہ خبر بجلی کو نہ ہو گلچیں کی نگاہ بد نہ پڑے
جس شاخ پہ تنکے رکھے ہیں وہ پھولتی پھلتی جاتی ہے

عارض پہ نمایاں خال ہوئے پھر سبزۂ خط آغاز ہوا
قرآں تو حقیقت میں ہے وہی تفسیر بدلتی جاتی ہے

توہین محبت بھی نہ رہی وہ جور و ستم بھی چھوٹ گئے
پہلے کی بہ نسبت حسن کی اب ہر بات بدلتی جاتی ہے

لاج اپنی مسیحا نے رکھ لی مرنے نہ دیا بیماروں کو
جو موت نہ ٹلنے والی تھی وہ موت بھی ٹلتی جاتی ہے

ہے بزم جہاں میں نا ممکن بے عشق سلامت حسن رہے
پروانے تو جل کر خاک ہوئے اب شمع بھی جلتی جاتی ہے

شکوہ بھی اگر میں کرتا ہوں تو جور فلک کا کرتا ہوں
بے وجہ قمرؔ تاروں کی نظر کیوں مجھ سے بدلتی جاتی ہے

Rate it:
Views: 619
10 Jul, 2021
More Qamar Jalalvi Poetry
دیکھتے ہیں رقص میں دن رات پیمانے کو ہم دیکھتے ہیں رقص میں دن رات پیمانے کو ہم
ساقیا راس آ گئے ہیں تیرے مے خانے کو ہم
لے کے اپنے ساتھ اک خاموش دیوانے کو ہم
جا رہے ہیں حضرت ناصح کو سمجھانے کو ہم
یاد رکھیں گے تمہاری بزم میں آنے کو ہم
بیٹھنے کے واسطے اغیار اٹھ جانے کو ہم
حسن مجبور ستم ہے عشق مجبور وفا
شمع کو سمجھائیں یا سمجھائیں پروانے کو ہم
رکھ کے تنکے ڈر رہے ہیں کیا کہے گا باغباں
دیکھتے ہیں آشیاں کی شاخ جھک جانے کو ہم
الجھنیں طول شب فرقت کی آگے آ گئیں
جب کبھی بیٹھے کسی کی زلف سلجھانے کو ہم
راستے میں رات کو مڈبھیڑ ساقی کچھ نہ پوچھ
مڑ رہے تھے شیخ جی مسجد کو بت خانے کو ہم
شیخ جی ہوتا ہے اپنا کام اپنے ہاتھ سے
اپنی مسجد کو سنبھالیں آپ بت خانے کو ہم
دو گھڑی کے واسطے تکلیف غیروں کو نہ دے
خود ہی بیٹھے ہیں تری محفل سے اٹھ جانے کو ہم
آپ قاتل سے مسیحا بن گئے اچھا ہوا
ورنہ اپنی زندگی سمجھے تھے مر جانے کو ہم
سن کے شکوہ حشر میں کہتے ہو شرماتے نہیں
تم ستم کرتے پھرو دنیا پہ شرمانے کو ہم
اے قمرؔ ڈر تو یہ ہے اغیار دیکھیں گے انہیں
چاندنی شب میں بلا لائیں بلا لانے کو ہم
Ijlal
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets