علوم یاد کر لیئے آج دنیا کے سارے تم نے
دیواروں پر اپنی سندیں سجائے بیٹھے ہو
جو اُتری تھی کتاب ہاشمی پر حجاز میں
جس میں تھی فلاح یقینی، اُسے ہی بُھلائے بیٹھے ہو
کیا اپنی صلاحیتوں پر بھروسا ہے بہت تم کو
یا اب بھی اُس رب سے کچھ اُمید لگائے بیٹھے ہو
ہر پیشے میں ہے مصروف آج کا مسلمان
ملتا ہے مگر رزق جس سے، وہ نماز ہی بُھلائے بیٹھے ہو
دی جاتی تھی کبھی مثال تمہاری امانت کی
آج ہر گلی بے ایمانی کی دکان لگائے بیٹھے ہو
کہتے تو صرف سچ، ورنہ چُپ رہتے تھے تم کبھی
آج جھوٹ بولنے کو تم اپنی پہچان بنائے بیٹھے ہو
زمانے میں تمہارا آج کیا مقام رہ گیا ہےبولو
تھی جو قابلِ رشک تم میں، وہ صفات بُھلائے بیٹھے ہو
جس کام کیلئے چُنا تھا اس امت میں نادر تم کو
آج تم اپنے اُسی مقصد کو بُھلائے بیٹھے ہو
،یوں دل جلائے بیٹھے ہو
حسرت لگائے بیٹھے ہو
،جس ذات نے دیا سب کچھ
اُسے ہی بُھلائے بیٹھے ہو