سب غم مُہمَل ہو جاتے ہیں
آج نہیں، کل ہو جاتے ہیں
پَل دو پَل کے کھیل میں شامل
ہم بھی دو پَل ہو جاتے ہیں
یادیں گھائل کر دیتی ہیں
لمحے دلدل ہو جاتے ہیں
اِک دن سپنے سارے پگلی
بہتا کاجل ہو جاتے ہیں
وقت کی گہری دُھند میں راہی
آنکھ سے اوجھل ہو جاتے ہیں
ایسے بھی ہیں لوگ جہاں میں
دھوپ میں بادَل ہو جاتے ہیں
آ بیٹھیں جب بِیچ انائیں
رشتے دنگل ہو جاتے ہیں
قید ہو جن میں یار کی خوشبو
شعر وہ صندل ہو جاتے ہیں
جاگے جب احساس دلوں میں
لہجے کومَل ہو جاتے ہیں
بوتل سے دکھ بانٹنے والے
نذرِ بوتل ہو جاتے ہیں
کچھ کو کرتا ہے جگ پاگل
اور کچھ پاگل ہو جاتے ہیں
ایوانوں میں عدل نہ ہو تو
شہر بھی جنگل ہو جاتے ہیں
پہرے ہوں جب سوچ پہ صاحب
مکتب مقتل ہو جاتے ہیں