Add Poetry

سب لوگ جان جاؤ کہ رمضان آ رھا ھے

Poet: SHABEEB HASHMI By: SHABEEB HASHMI, Al-Khobar

سب لوگ جان جاؤ کہ رمضان آ رھا ھے
اب سارے غم بھلاؤ کہ رمضان آ رھا ھے

مہکیں گی اب گلیاں جھومیں گے پھر نظارے
راھوں میں نظریں بچھاؤ کہ رمضان آ رھا ھے

مہمان ھے وہ ایسا جو رحمت کو ساتھ لایا
عبادت سے گھر کو سجاؤ کہ رمضان آ رھا ھے

سحری میں جاگنا بھی اس سے ھے یہ عقیدت
بس الله سے لؤ لگاؤ کہ رمضان آ رھا ھے

افطار کی ھوں شامیں تم سب کو یاد رکھنا
غریبوں کو سنگ لے آؤ کہ رمضان آ رھا ھے

مشکل کی ھر گھڑی اب دعاؤں سے کٹ جائیگی
سجدوں سے رات کو سجاؤ کہ رمضان آ رھا ھے

Rate it:
Views: 674
08 Jul, 2013
Related Tags on Occassional / Events Poetry
Load More Tags
More Occassional / Events Poetry
غالب و اقبال ہوں نہ رُوحِ میر غالب و اقبال ہوں نہ رُوحِ میر
تذکرہ اجداد کا ہے نا گزیر
بھُول سکتا ہوں نوشہرہ کس طرح
جس کی مِٹّی سے اُٹھا میرا خمیر
پکّی اینٹوں سے بنی گلیوں کی شان
آج تک ہوں اسکی یادوں کا اسیر
دُور دُور تک لہلہاتے کھیت تھے
آہ وہ نظّارہ ہائے دلپذیر
میرے گھر کا نقشہ تھا کچھ اس طرح
چند کمرے صحن میں منظر پذیر
صحن میں بیت الخلا تھی اک طرف
اور اک برآمدہ بیٹھک نظیر
صحن میں آرام کُرسی بھی تھی ایک
بیٹھتے تھے جس پہ مجلس کے امیر
پیڑ تھا بیری کا بھی اک وسط میں
چار پائیوں کا بھی تھا جمِّ غفیر
حُقّے کی نَے پر ہزاروں تبصرے
بے نوا و دلربا میر و وزیر
گھومتا رہتا بچارا بے زباں
ایک حُقّہ اور سب برناؤ پیر
اس طرف ہمسائے میں ماسی چراغ
جبکہ ان کی پشت پہ ماسی وزیر
سامنے والا مکاں پھپھو کا تھا
جن کے گھر منسوب تھیں آپا نذیر
چند قدموں پر عظیم اور حفیظ تھے
دونوں بھائی با وقار و با ضمیر
شان سے رہتے تھے سارے رشتے دار
لٹکا رہتا تھا کماں کے ساتھ تیر
ایک دوجے کے لئے دیتے تھے جان
سارے شیر و شکر تھے سب با ضمیر
ریل پیل دولت کی تھی گاؤں میں خوب
تھوڑے گھر مزدور تھے باقی امیر
کھا گئی اس کو کسی حاسد کی آنکھ
ہو گیا میرا نوشہرہ لیر و لیر
چھوڑنے آئے تھے قبرستان تک
رو رہے تھے سب حقیر و بے نظیر
مَیں مرا بھائی مری ہمشیرہ اور
ابّا جی مرحوم اور رخشِ صغیر
کاش آ جائے کسی کو اب بھی رحم
کر دے پھر آباد میرا کاشمیر
آ گیا جب وقت کا کیدو امید
ہو گئے منظر سے غائب رانجھا ہیر
 
امید خواجہ
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets