سب کے دلوں پہ کندہ ہیں
بے نظیر آج بھی زندہ ہیں
ہم کو دیا پیغام جمہور
یاد رکھیں ہم انکو ضرور
لیکن ہیں وہ نظر سے دور
دے کے گئیں ہیں ہم کو شعور
سب کے دلوں پہ کندہ ہیں
بے نظیر آج بھی زندہ ہیں
ایسی اچھی عادت تھی
قوم کو ان کی چاہت تھی
ان کے دم سے بر کت تھی
سب کو ان کی ضرورت تھی
سب کے دلوں پہ کندہ ہیں
بے نظیر آج بھی زندہ ہیں
کیا ہو بیان ان کا حال
ظاہر ہے یہ ان کا کمال
قوم ہے غم میں آج نڈھال
ان کی جدائی کا ہے ملال
سب کے دلوں پہ کندہ ہیں
بے نظیر آج بھی زندہ ہیں
ایسی صادق عورت تھیں
قوم کے سر پر رحمت تھیں
خاص وطن کی دولت تھیں
اتنی صاحبِ شہرت تھیں
سب کے دلوں پہ کندہ ہیں
بے نظیر آج بھی زندہ ہیں
دنیا کو ہے رنج و ملال
کرتی تھیں وہ ایسا کمال
بیت گیا ہے پورا سال
جاتا نہیں ہے ان کا خیال
سب کے دلوں پہ کندہ ہیں
بے نظیر آج بھی زندہ ہیں
جس نے ان کو قتل کیا
اس کا حال بھی ہوگا برا
پائے گا اِک دن ایسی سزا
دوزخ میں جل جائے گا
سب کے دلوں پہ کندہ ہیں
بے نظیر آج بھی زندہ ہیں
کر کے جمہوریت پہ جان نثار
پائیں گیں جنت کا گلزار
سکھیں ہم سب ان کا شعار
کوئی نہیں ہے اب غمخوار
سب کے دلوں پہ کندہ ہیں
بے نظیر آج بھی زندہ ہیں
قبر بھی ہے ان کی ہے گلزار
برسے ہیں حق کے انوار
چھائی ہے ہر سمت بہار
چاروں طرف ہے اسکی پکار
سب کے دلوں پہ کندہ ہیں
بے نظیر آج بھی زندہ ہیں
ماہِ دسمبر آیا ہے
اس نے ستم یہ ڈھایا ہے
سب کو خوب رلایا ہے
چین یہ کہہ کے آیا ہے
سب کے دلوں پہ کندہ ہیں
بے نظیر آج بھی زندہ ہیں
یاد رکھیں سب ان کا پیام
کیونکہ وہ تھیں عالی مقام
اعظم ان کو میرا سلام
کہتے رہو یہ گام گام
سب کے دلوں پہ کندہ ہیں
بے نظیر آج بھی زندہ ہیں