سبھی رستے یہاں کھوئے ہوئے ہیں
مسافر اس لیے سوئے ہوئے ہیں
کسی کے ہجر میں میری طرح سے
مری جاں آپ بھی روئے ہوئے ہیں
کبھی تو دوستی کی فصل ہوگی
امیں میں بیج تو بوئے ہوئے ہیں
نئی پوشاک ہے اس کے بدن پر
یہ کپڑے ہم نے بھی دھوئے ہوئے ہیں
سبھی خوش باش ہیں بزمِ طرب میں
یہ رند جانے کہاں کھوئے ہوئے ہیں