ستارہ بار بن جائے نظر ایسا نہیں ہوتا
ہر اک امید بر آئے مگر ایسا نہیں ہوتا
محبت اور قربانی میں ہی تعمیر مضمر ہے
در و دیوار سے بن جائے گھر ایسا نہیں ہوتا
سبھی کے ہاتھ میں مثل سفال نم نہیں رہنا
جو مل جائے وہی ہو کوزہ گر ایسا نہیں ہوتا
کہا جلتا ہوا گھر دیکھ کر اہل تماشا نے
دھواں ایسے نہیں اٹھتا شرر ایسا نہیں ہوتا
کسی کی مہرباں دستک نے زندہ کر دیا مجھ کو
میں پتھر ہو گئی ہوتی اگر ایسا نہیں ہوتا
کسی جذبے کی شدت منحصر تکمیل پر بھی تھی
نہ پایا ہو تو کھونے کا بھی ڈر ایسا نہیں ہوتا