ستارے سو گئے تو آسماں کیسا لگے گا
جہان تیرگی میں یہ جہاں کیسا لگے گا
بچھڑ کے ساحلوں سے موج دل کیسی لگے گی
بکھر کے آندھیوں میں بادباں کیسا لگے گا
ٹھہر جائیں گی جب یہ کشتیاں کیسی لگیں گی
گزر جائے گا جب آب رواں کیسا لگے گا
عمارت ڈھہ چکی ہوگی جو سانسیں ٹوٹنے سے
تو پھر وہ سایۂ دیوار جاں کیسا لگے گا
اتر جائے گا رنگ عاشقی جب اس کے خوں سے
تو دل بیگانۂ سود و زیاں کیسا لگے گا
قفس کیسا لگے گا اڑ گئے جب گاتے پنچھی
نہ ہوگا جب کوئی شور و فغاں کیسا لگے گا
بکھر جائیں گی زنجیریں سبھی زندانیوں کی
زوال نخوت نا مہرباں کیسا لگے گا
بہت رنگینیاں ہوں گی اگرچہ رہ میں لیکن
مسافر کھو گیا تو کارواں کیسا لگے گا
جہاں تم سے بہت پہلے پہنچ جائیں گے ہم لوگ
نہ جانے آخری وہ خاک داں کیسا لگے گا