ستارے سو گئے تو آسماں کیسا لگے گا
Poet: Sabir Zafar By: uzair, multan
ستارے سو گئے تو آسماں کیسا لگے گا
جہان تیرگی میں یہ جہاں کیسا لگے گا
بچھڑ کے ساحلوں سے موج دل کیسی لگے گی
بکھر کے آندھیوں میں بادباں کیسا لگے گا
ٹھہر جائیں گی جب یہ کشتیاں کیسی لگیں گی
گزر جائے گا جب آب رواں کیسا لگے گا
عمارت ڈھہ چکی ہوگی جو سانسیں ٹوٹنے سے
تو پھر وہ سایۂ دیوار جاں کیسا لگے گا
اتر جائے گا رنگ عاشقی جب اس کے خوں سے
تو دل بیگانۂ سود و زیاں کیسا لگے گا
قفس کیسا لگے گا اڑ گئے جب گاتے پنچھی
نہ ہوگا جب کوئی شور و فغاں کیسا لگے گا
بکھر جائیں گی زنجیریں سبھی زندانیوں کی
زوال نخوت نا مہرباں کیسا لگے گا
بہت رنگینیاں ہوں گی اگرچہ رہ میں لیکن
مسافر کھو گیا تو کارواں کیسا لگے گا
جہاں تم سے بہت پہلے پہنچ جائیں گے ہم لوگ
نہ جانے آخری وہ خاک داں کیسا لگے گا
More Sabir Zafar Poetry
نئے کپڑے بدل اور بال بنا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں نئے کپڑے بدل اور بال بنا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں
کوئی چھوڑ گیا یہ شہر تو کیا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں
کئی پلکیں ہیں اور پیڑ کئی محفوظ ہے ٹھنڈک جن کی ابھی
کہیں دور نہ جا مت خاک اڑا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں
کہتی ہے یہ شام کی نرم ہوا پھر مہکے گی اس گھر کی فضا
نیا کمرہ سجا نئی شمع جلا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں
کئی پھولوں جیسے لوگ بھی ہیں انہی ایسے ویسے لوگوں میں
تو غیروں کے مت ناز اٹھا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں
بے چین ہے کیوں اے ناصرؔ تو بے حال ہے کس کی خاطر تو
پلکیں تو اٹھا چہرہ تو دکھا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں
کوئی چھوڑ گیا یہ شہر تو کیا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں
کئی پلکیں ہیں اور پیڑ کئی محفوظ ہے ٹھنڈک جن کی ابھی
کہیں دور نہ جا مت خاک اڑا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں
کہتی ہے یہ شام کی نرم ہوا پھر مہکے گی اس گھر کی فضا
نیا کمرہ سجا نئی شمع جلا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں
کئی پھولوں جیسے لوگ بھی ہیں انہی ایسے ویسے لوگوں میں
تو غیروں کے مت ناز اٹھا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں
بے چین ہے کیوں اے ناصرؔ تو بے حال ہے کس کی خاطر تو
پلکیں تو اٹھا چہرہ تو دکھا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں
faizi
وہ صدائیں دیتا رہا ہو میں نے سنا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو وہ صدائیں دیتا رہا ہو میں نے سنا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
مجھے لگ رہا ہو جدا مگر وہ جدا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
نہیں کوئی راز یگانگی نہیں کوئی ساز فسانگی
مگر ایک ساز فسانہ راز یگانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
میں سمجھتا ہوں اسے خوش نصیب کوئی چومتا ہے اگر صلیب
کہ یہ ساز مرگ ہی زندگی کا ترانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
میں دیاسلائی کی روشنی میں تلاش کرتا رہا تمہیں
مگر اپنا مقصد اندھیری رات بتانا ہو کہیں یوں نہ ہو
میں تمہارے عشق میں رات دن جو دکھائی دیتا ہوں مطمئن
مرا گھر ہی صرف لٹا ہو دل تو لٹا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ شمار ماہ و نجوم ہو کہ خمار ترک رسوم ہو
کوئی بار سوچ بچار ہی کا پڑا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
کسی ہونٹ سے کوئی رس ملے کوئی دم فرشتہ نفس ملے
وہ ملا بھی ہو تو مجھے دوبارہ ملا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
ترے پاؤں چھوتی وہ ساعتیں وہ تغیرات کی سبقتیں
کسی پل کا جیسے کہیں بھی کوئی سرا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
جو ہے اپنے رنگ میں صندلی جو ہے اپنے لمس میں مخملی
مری خلوتوں کو اسی نے جیسے لبھانا ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ اساس عزم سے آشنا وہ لباس نظم سے رونما
کسی قافیے یا ردیف سے وہ کھلا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
کوئی آبشار نہ آب جو کسی اور لہر کی آرزو
مری پیاس بجھنے کا اور کوئی ٹھکانا ہو کہیں یوں نہ ہو
کہیں یوں نہ ہو کوئی پل صراط کے پار ہو مرا منتظر
مگر اس کو جا کے ادھر تلاش کیا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
کسی عید پر یا بسنت پر وہ ملے گا عمر کے انت پر
میں یہ سوچتا ہوں کہ یہ بھی کوئی بہانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ افق بنفسی جو کھو چکا کوئی آفتاب جو سو چکا
انہیں رنج میرے اکیلے پن کا رہا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
مجھے ناز اپنے خیال پر مجھے ناز اس کے جمال پر
میں سمجھ رہا ہوں جسے نیا وہ نیا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
مرے دل کے دین کو بیچ کر کوئی لے گیا مجھے کھینچ کر
مرے انگ انگ میں اپنا رنگ جمانا ہو کہیں یوں نہ ہو
یہی ہم قدم کی ہیں لغزش یہی زیر و بم کی ہیں لرزشیں
جسے بھولنا نہ ہو وہ ہی یاد رہا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
کوئی شعلہ سا جو بھڑک اٹھا کوئی درد سا جو چمک اٹھا
مرے درد دل کا یہ عارضہ بھی پرانا ہو کہیں یوں نہ ہو
میں دیے جلاؤں منڈیر پر کہ ضرور آئے گا وہ ادھر
اسی شام وہ کسی اور سمت روانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
کبھی سرمئی کبھی آتشی کبھی نقرئی کبھی کاسنی
کسی ایک رنگ میں رہ کے جی ہی لگانا ہو کہیں یوں نہ ہو
کسی فرش و عرش میں کچھ نہیں میں جھکا رہا ہوں یوں ہی جبیں
جسے ڈھونڈوں میں وہ قدم ہی اس نے رکھا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
ہمیں سرکشی سے مقدروں کو بدلنا آیا نہیں ابھی
مگر ایسا کرنا محبتوں میں ردا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
جو تھی کل وہ آج ہے زندگی ابھی لا علاج ہے زندگی
کہ مسیح عصر کے پاس اس کی دوا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ مصوری ہوئی شاعری کسی کام آئے یہ ساحری
دل پاک باز بھی مہ رخوں کا دوانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
شب وصل جلوۂ طور سا وہ بدن چمکتا تھا نور سا
کوئی لا زوال وفور رنگ شبانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
میں کہاں سے لاؤں وہ زندگی جو سراسر اس کی ہو بندگی
مری روح کی جو طلب ہے اس کی رضا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
مرا آخرت پہ تو ہے یقیں کہیں زہر ہو نہ یہ انگبیں
میں حقیقت اس کو سمجھ لوں اور وہ فسانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
یہ ستیزہ کاری نہ ہو شروع ہے کہاں غروب کہاں طلوع
جو ترا زمانہ ہو وہ ہی مرا زمانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
میں گزر کے آیا ہوں قبر سے کہ علاقہ رکھتا ہوں صبر سے
مری روح میں کوئی اضطراب فنا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
یہ گریز تو ذرا کم کرو مری کائنات میں رم کرو
سو گرم کرو کہ دوبارہ پر یہ خلا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
نہ سہاگ رات چمک سکی یوں ہی کسمساتے سحر ہوئی
کوئی دیپ گمشدہ تھالیوں میں جلانا ہو کہیں یوں نہ ہو
مجھے اس کی شکل دکھائی دے نہ ہی اپنی شکل دکھائی دے
مرا آئینہ مرے شیشہ گر کی عطا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
مجھی تیرہ بخت کی بات ہے کہ یہ وقت وقت کی بات ہے
جسے یاد کر کے جیوں اسی کو بھلانا ہو کہیں یوں نہ ہو
جو ہے میرے دل کا معاملہ جو ہے نظم دہر سے ماورا
کہیں اس کے واسطے حرف کن ہی کہا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ برہنگی کا قصیدہ کہتے ہوئے ادھر نکل آیا تھا
مگر اس کی آنکھوں میں ستر پوش حیا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
نہ وہ یار تھا نہ وہ داشتہ میں کہاں پناہ تراشتا
مجھے لے کے دل مرا در بدر ہی پھرا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
سر راہ سینہ نکالتا ہوا آیا تھا جو وہ خوش نگاہ
دل عشق خو کو وہ پر غرور لگا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
ہو عبث یہاں اسے دیکھنا ہو عبث یہاں اسے ڈھونڈھنا
مرا یار میرے بغیر جی ہی سکا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ خیال کھول کے دیکھنا وہ سوال تول کے دیکھنا
کہ سمجھ رہے ہو جسے خفا وہ خفا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
مری زندگی تری بندگی سے جدا نہیں کبھی غور کر
مرے اجتہاد پہ تو نے غور کیا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
اسی واسطے ابھی زندگی ہوں کہ تمہارا چہرہ ہے سامنے
کوئی اور شخص مری نظر میں جچا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ کوئی دغا کوئی معرکہ وہ شجاعتیں اور محاصرہ
وہ کوئی قدیم رجز سنا ہی گیا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
جو عزیز جاں سے ہے کافرہ اسے زیب دے نہ منافرہ
یہ نہیں بعید کہ اس کو پاس وفا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
ترا حسن اسیر نہ کر سکا نہ میں تیرے واسطے مر سکا
کہیں میرا ساتھ مرے خدا نے دیا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
کوئی ہجرتی غم دہر میں ہو رواں دواں کسی لہر میں
کوئی رہ رہا تھا جہاں وہاں وہ رہا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ قرون اصل کی ساعتیں وہ جنون وصل کی راحتیں
مرے واسطے ہوں مجھے پتہ ہی چلا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
کسی اور کے لیے ہو چھپا کے ہنسی وہ اس نے رکھی ہوئی
ظفرؔ اک مجھی کو ہمیشہ خون رلانا ہو کہیں یوں نہ ہو
مجھے لگ رہا ہو جدا مگر وہ جدا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
نہیں کوئی راز یگانگی نہیں کوئی ساز فسانگی
مگر ایک ساز فسانہ راز یگانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
میں سمجھتا ہوں اسے خوش نصیب کوئی چومتا ہے اگر صلیب
کہ یہ ساز مرگ ہی زندگی کا ترانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
میں دیاسلائی کی روشنی میں تلاش کرتا رہا تمہیں
مگر اپنا مقصد اندھیری رات بتانا ہو کہیں یوں نہ ہو
میں تمہارے عشق میں رات دن جو دکھائی دیتا ہوں مطمئن
مرا گھر ہی صرف لٹا ہو دل تو لٹا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ شمار ماہ و نجوم ہو کہ خمار ترک رسوم ہو
کوئی بار سوچ بچار ہی کا پڑا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
کسی ہونٹ سے کوئی رس ملے کوئی دم فرشتہ نفس ملے
وہ ملا بھی ہو تو مجھے دوبارہ ملا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
ترے پاؤں چھوتی وہ ساعتیں وہ تغیرات کی سبقتیں
کسی پل کا جیسے کہیں بھی کوئی سرا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
جو ہے اپنے رنگ میں صندلی جو ہے اپنے لمس میں مخملی
مری خلوتوں کو اسی نے جیسے لبھانا ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ اساس عزم سے آشنا وہ لباس نظم سے رونما
کسی قافیے یا ردیف سے وہ کھلا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
کوئی آبشار نہ آب جو کسی اور لہر کی آرزو
مری پیاس بجھنے کا اور کوئی ٹھکانا ہو کہیں یوں نہ ہو
کہیں یوں نہ ہو کوئی پل صراط کے پار ہو مرا منتظر
مگر اس کو جا کے ادھر تلاش کیا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
کسی عید پر یا بسنت پر وہ ملے گا عمر کے انت پر
میں یہ سوچتا ہوں کہ یہ بھی کوئی بہانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ افق بنفسی جو کھو چکا کوئی آفتاب جو سو چکا
انہیں رنج میرے اکیلے پن کا رہا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
مجھے ناز اپنے خیال پر مجھے ناز اس کے جمال پر
میں سمجھ رہا ہوں جسے نیا وہ نیا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
مرے دل کے دین کو بیچ کر کوئی لے گیا مجھے کھینچ کر
مرے انگ انگ میں اپنا رنگ جمانا ہو کہیں یوں نہ ہو
یہی ہم قدم کی ہیں لغزش یہی زیر و بم کی ہیں لرزشیں
جسے بھولنا نہ ہو وہ ہی یاد رہا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
کوئی شعلہ سا جو بھڑک اٹھا کوئی درد سا جو چمک اٹھا
مرے درد دل کا یہ عارضہ بھی پرانا ہو کہیں یوں نہ ہو
میں دیے جلاؤں منڈیر پر کہ ضرور آئے گا وہ ادھر
اسی شام وہ کسی اور سمت روانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
کبھی سرمئی کبھی آتشی کبھی نقرئی کبھی کاسنی
کسی ایک رنگ میں رہ کے جی ہی لگانا ہو کہیں یوں نہ ہو
کسی فرش و عرش میں کچھ نہیں میں جھکا رہا ہوں یوں ہی جبیں
جسے ڈھونڈوں میں وہ قدم ہی اس نے رکھا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
ہمیں سرکشی سے مقدروں کو بدلنا آیا نہیں ابھی
مگر ایسا کرنا محبتوں میں ردا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
جو تھی کل وہ آج ہے زندگی ابھی لا علاج ہے زندگی
کہ مسیح عصر کے پاس اس کی دوا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ مصوری ہوئی شاعری کسی کام آئے یہ ساحری
دل پاک باز بھی مہ رخوں کا دوانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
شب وصل جلوۂ طور سا وہ بدن چمکتا تھا نور سا
کوئی لا زوال وفور رنگ شبانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
میں کہاں سے لاؤں وہ زندگی جو سراسر اس کی ہو بندگی
مری روح کی جو طلب ہے اس کی رضا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
مرا آخرت پہ تو ہے یقیں کہیں زہر ہو نہ یہ انگبیں
میں حقیقت اس کو سمجھ لوں اور وہ فسانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
یہ ستیزہ کاری نہ ہو شروع ہے کہاں غروب کہاں طلوع
جو ترا زمانہ ہو وہ ہی مرا زمانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
میں گزر کے آیا ہوں قبر سے کہ علاقہ رکھتا ہوں صبر سے
مری روح میں کوئی اضطراب فنا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
یہ گریز تو ذرا کم کرو مری کائنات میں رم کرو
سو گرم کرو کہ دوبارہ پر یہ خلا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
نہ سہاگ رات چمک سکی یوں ہی کسمساتے سحر ہوئی
کوئی دیپ گمشدہ تھالیوں میں جلانا ہو کہیں یوں نہ ہو
مجھے اس کی شکل دکھائی دے نہ ہی اپنی شکل دکھائی دے
مرا آئینہ مرے شیشہ گر کی عطا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
مجھی تیرہ بخت کی بات ہے کہ یہ وقت وقت کی بات ہے
جسے یاد کر کے جیوں اسی کو بھلانا ہو کہیں یوں نہ ہو
جو ہے میرے دل کا معاملہ جو ہے نظم دہر سے ماورا
کہیں اس کے واسطے حرف کن ہی کہا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ برہنگی کا قصیدہ کہتے ہوئے ادھر نکل آیا تھا
مگر اس کی آنکھوں میں ستر پوش حیا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
نہ وہ یار تھا نہ وہ داشتہ میں کہاں پناہ تراشتا
مجھے لے کے دل مرا در بدر ہی پھرا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
سر راہ سینہ نکالتا ہوا آیا تھا جو وہ خوش نگاہ
دل عشق خو کو وہ پر غرور لگا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
ہو عبث یہاں اسے دیکھنا ہو عبث یہاں اسے ڈھونڈھنا
مرا یار میرے بغیر جی ہی سکا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ خیال کھول کے دیکھنا وہ سوال تول کے دیکھنا
کہ سمجھ رہے ہو جسے خفا وہ خفا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
مری زندگی تری بندگی سے جدا نہیں کبھی غور کر
مرے اجتہاد پہ تو نے غور کیا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
اسی واسطے ابھی زندگی ہوں کہ تمہارا چہرہ ہے سامنے
کوئی اور شخص مری نظر میں جچا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ کوئی دغا کوئی معرکہ وہ شجاعتیں اور محاصرہ
وہ کوئی قدیم رجز سنا ہی گیا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
جو عزیز جاں سے ہے کافرہ اسے زیب دے نہ منافرہ
یہ نہیں بعید کہ اس کو پاس وفا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
ترا حسن اسیر نہ کر سکا نہ میں تیرے واسطے مر سکا
کہیں میرا ساتھ مرے خدا نے دیا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
کوئی ہجرتی غم دہر میں ہو رواں دواں کسی لہر میں
کوئی رہ رہا تھا جہاں وہاں وہ رہا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ قرون اصل کی ساعتیں وہ جنون وصل کی راحتیں
مرے واسطے ہوں مجھے پتہ ہی چلا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
کسی اور کے لیے ہو چھپا کے ہنسی وہ اس نے رکھی ہوئی
ظفرؔ اک مجھی کو ہمیشہ خون رلانا ہو کہیں یوں نہ ہو
hurain
ستارے سو گئے تو آسماں کیسا لگے گا ستارے سو گئے تو آسماں کیسا لگے گا
جہان تیرگی میں یہ جہاں کیسا لگے گا
بچھڑ کے ساحلوں سے موج دل کیسی لگے گی
بکھر کے آندھیوں میں بادباں کیسا لگے گا
ٹھہر جائیں گی جب یہ کشتیاں کیسی لگیں گی
گزر جائے گا جب آب رواں کیسا لگے گا
عمارت ڈھہ چکی ہوگی جو سانسیں ٹوٹنے سے
تو پھر وہ سایۂ دیوار جاں کیسا لگے گا
اتر جائے گا رنگ عاشقی جب اس کے خوں سے
تو دل بیگانۂ سود و زیاں کیسا لگے گا
قفس کیسا لگے گا اڑ گئے جب گاتے پنچھی
نہ ہوگا جب کوئی شور و فغاں کیسا لگے گا
بکھر جائیں گی زنجیریں سبھی زندانیوں کی
زوال نخوت نا مہرباں کیسا لگے گا
بہت رنگینیاں ہوں گی اگرچہ رہ میں لیکن
مسافر کھو گیا تو کارواں کیسا لگے گا
جہاں تم سے بہت پہلے پہنچ جائیں گے ہم لوگ
نہ جانے آخری وہ خاک داں کیسا لگے گا
جہان تیرگی میں یہ جہاں کیسا لگے گا
بچھڑ کے ساحلوں سے موج دل کیسی لگے گی
بکھر کے آندھیوں میں بادباں کیسا لگے گا
ٹھہر جائیں گی جب یہ کشتیاں کیسی لگیں گی
گزر جائے گا جب آب رواں کیسا لگے گا
عمارت ڈھہ چکی ہوگی جو سانسیں ٹوٹنے سے
تو پھر وہ سایۂ دیوار جاں کیسا لگے گا
اتر جائے گا رنگ عاشقی جب اس کے خوں سے
تو دل بیگانۂ سود و زیاں کیسا لگے گا
قفس کیسا لگے گا اڑ گئے جب گاتے پنچھی
نہ ہوگا جب کوئی شور و فغاں کیسا لگے گا
بکھر جائیں گی زنجیریں سبھی زندانیوں کی
زوال نخوت نا مہرباں کیسا لگے گا
بہت رنگینیاں ہوں گی اگرچہ رہ میں لیکن
مسافر کھو گیا تو کارواں کیسا لگے گا
جہاں تم سے بہت پہلے پہنچ جائیں گے ہم لوگ
نہ جانے آخری وہ خاک داں کیسا لگے گا
uzair
چھانے ہوں گے صحرا جس نے وہ ہی جان سکا ہوگا چھانے ہوں گے صحرا جس نے وہ ہی جان سکا ہوگا
مٹی میں ہم جیسے ملے ہیں کم کوئی خاک ہوا ہوگا
الٹے سیدھے گرتے پڑتے چل پڑتے ہیں اس لیے ہم
منزل پر لے جانے والا کوئی تو نقش پا ہوگا
اتنی سج دھج سے جو چلے تھے قافلے وہ ہیں ٹھہر گئے
ہوگا ہوائے صحرا جیسا آگے جو بھی گیا ہوگا
کچھ ہونے سے انہونے سے فرق تو پڑنے والا نہیں
ہو نہیں پایا اب تک کچھ بھی ہوگا بھی تو کیا ہوگا
مڑ کے جو آ نہیں پایا ہوگا اس کوچے میں جا کے ظفرؔ
ہم جیسا بے بس ہوگا ہم جیسا تنہا ہوگا
مٹی میں ہم جیسے ملے ہیں کم کوئی خاک ہوا ہوگا
الٹے سیدھے گرتے پڑتے چل پڑتے ہیں اس لیے ہم
منزل پر لے جانے والا کوئی تو نقش پا ہوگا
اتنی سج دھج سے جو چلے تھے قافلے وہ ہیں ٹھہر گئے
ہوگا ہوائے صحرا جیسا آگے جو بھی گیا ہوگا
کچھ ہونے سے انہونے سے فرق تو پڑنے والا نہیں
ہو نہیں پایا اب تک کچھ بھی ہوگا بھی تو کیا ہوگا
مڑ کے جو آ نہیں پایا ہوگا اس کوچے میں جا کے ظفرؔ
ہم جیسا بے بس ہوگا ہم جیسا تنہا ہوگا
iqbal






