ستم ظریف تجھے کیا ملا ستا کے مجھے
کیا چھوڑ جائے گا اتنے قریب آکے مجھے
کسی طوفان کی زد میں یہ میرا دل تو نہیں
کہیں لے جائے نہ سیلاب یہ بہا کے مجھے
میرا یقین رہے وصل یار پر باقی
فریب دیتے ہیں اکثر جھلک دکھا کےمجھے
یہی گمان ہے راتوں میں وہ بھی میرےلیئے
وہ خود بھی ٹوٹ کےروئے گاپھر رلاکے مجھے
یہ اذیتیں تو خود ساختہ نہیں ہیں میری
زمانہ ہنستاہے پھرکیوں یوں جلا کے مجھے
بکھر گئ ہوں میں کانچ کے برتن کی طرح
مرا نصیب گیا کرچیاں چھبا کے مجھے
ہمیں پہ جرم ہے عائد تلاش ہستی کا
غزل ملے گا کیا سولی پہ یوں چڑھا کے مجھے