نفرت کے تو نے باب مٹائے نصاب سے
کانٹوں کو چن کے باغ سجائے گلاب کے
تیری اذان سحر نے ظلمت کو چیر کر
سوتے ہوئے جگائے ہیں غفلت کے خواب سے
منزل کی جستجو میں بھٹکتے تھے جو یہاں
تونے وہ قافلے بھی بچائے سراب سے
ظلمت کے پیروکاروں کا تو ہی علاج ہے
نفرت جو بانٹتے ہیں خدا کی کتا ب سے
اہل خرد کو اپنے فہم کا غرور تھا
اب منہ چھپائے پھرتے ہیں تیرے جواب سے
ذہنوں پہ چھائی جھوٹ کی چادر کرئی ہے چاک
ہلچل مچا کے رکھدی ہے تو نے خطا ب سے
کھل کر بتا دیا ہے مسائل کے ساتھ حل
آگاہ بھی کردیا ہے عقل کو عذاب سے
چہروں کو بے حجا ب کیا سب کے سامنے
اب تک چھپے ہوئے تھے ریاء کے نقا ب سے
خدمت کے رنگ میں طرز سیاست کو ڈھا ل کر
تکلیف کو بدل دیا راحت ،ثواب سے