تیری عنایات ہیں اتنی کہ سجدۂ شکر ختم نہ ہو
تیرے راستے میں کانٹے ہوں میرا سفر ختم نہ ہو
پھیلا دوں روشنی کی طرح علم خضر ختم نہ ہو
توبہ کرتا رہوں اتنی میرا عذر ختم نہ ہو
سجدے میں سامنے تیرا گھر ہو یہ منظر ختم نہ ہو
تیری رحمتوں کی ہو بارش میرا فقر ختم نہ ہو
مجھ ادنیٰ کو تیرے انعام کا فخر ختم نہ ہو
جہاں جہاں تیرا کلام ہو میرا گزر ختم نہ ہو
تیری منزل تک ہر راستے کی ٹھوکر ختم نہ ہو
آزمائشوں کے پہاڑ ہوں میرا صبر ختم نہ ہو
زندگی بھلے رک جاۓ میرا جذر ختم نہ ہو
وجود چاہے مٹ جاۓ میری نظر ختم نہ ہو
تیری اطاعت میں کہیں کمی نہ ہو میرا ڈر ختم نہ ہو
بادباں کو چاہے کھینچ لے مگر لہر ختم نہ ہو
خواہشیں بھلا مجھے چھوڑ دیں تیرا ثمر ختم نہ ہو
تیری عبادت میں اتنا جیئوں میری عمر ختم نہ ہو
بھول جاؤں کہ میں کون ہوں مگر تیرا ذکر ختم نہ ہو
جاگوں جب غفلت شب سے میرا فجر ختم نہ ہو
تیری محبت کا جرم وار ہوں میرا حشر ختم نہ ہو
تیری حکمت سے شفایاب ہوں مگر اثر ختم نہ ہو
میرے عمل مجھ سے شرمندہ ہوں مگر فکر ختم نہ ہو
منزلیں چاھے سب گزر جایئں مگر امر ختم نہ ہو
سپیدی و سیاہی رہے نہ رہے مگر نشر ختم نہ ہو
دن چایے رات میں چھپ جائے مگر ازھر ختم نہ ہو