یاد تمہاری آتی ہے سحَرو اَفطار میں
ڈھونڈتی ہیں آنکھیں تجھے یادوں کے انبار میں
لوٹ آتی ہیں جب خالی نگاہیں
اک ہوک سی اٹھتی ہے دلِ بقرار میں
یُوں تو غمِ دل مٹانے کے لیے کی ہیں چشم تَر
تصویر تری پھر بھی بنتی رہی آنسوؤں کی قطار میں
رمضان آیا اور تم نہیں آئے ،چلو اچھا ہی کیا
گزر جاہیں گے دن کچھ اور تیرے انتظار میں
افطاری کے بعد بھی بُجھ نہ سکی تشنگیِ دید
شدت باقی رہی یادوں کی دلِ بے قرار میں
عید سے پہلے اگر تم ہلال عید بن کر آ جاؤ
لاج میری بھی رہ جائے گی بھرے سنسار میں
تم لوٹ آئے تو جانا میں نے میرے زیب
رائیگاں کب جاتی ہے دعا جو مانگی ہو افطار میں