سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو
Poet: Meer Anees By: murtaza, khi
سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو
 ہم آسمان سے لائے ہیں ان زمینوں کو
 
 پڑھیں درود نہ کیوں دیکھ کر حسینوں کو
 خیال صنعت صانع ہے پاک بینوں کو
 
 کمال فقر بھی شایاں ہے پاک بینوں کو
 یہ خاک تخت ہے ہم بوریا نشینوں کو
 
 لحد میں سوئے ہیں چھوڑا ہے شہ نشینوں کو
 قضا کہاں سے کہاں لے گئی مکینوں کو
 
 یہ جھریاں نہیں ہاتھوں پہ ضعف پیری نے
 چنا ہے جامۂ اصلی کی آستینوں کو
 
 لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار
 خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
 
 بھلا تردد بے جا سے ان میں کیا حاصل
 اٹھا چکے ہیں زمیندار جن زمینوں کو
 
 انہیں کو آج نہیں بیٹھنے کی جا ملتی
 معاف کرتے تھے جو لوگ کل زمینوں کو
 
 یہ زائروں کو ملیں سرفرازیاں ورنہ
 کہاں نصیب کہ چومیں ملک جبینوں کو
 
 سجایا ہم نے مضامیں کے تازہ پھولوں سے
 بسا دیا ہے ان اجڑی ہوئی زمینوں کو
 
 لحد بھی دیکھیے ان میں نصیب ہو کہ نہ ہو
 کہ خاک چھان کے پایا ہے جن زمینوں کو
 
 زوال طاقت و موئے سپید و ضعف بصر
 انہیں سے پائے بشر موت کے قرینوں کو
 
 نہیں خبر انہیں مٹی میں اپنے ملنے کی
 زمیں میں گاڑ کے بیٹھے ہیں جو دفینوں کو
 
 خبر نہیں انہیں کیا بندوبست پختہ کی
 جو غصب کرنے لگے غیر کی زمینوں کو
 
 جہاں سے اٹھ گئے جو لوگ پھر نہیں ملتے
 کہاں سے ڈھونڈ کے اب لائیں ہم نشینوں کو
 
 نظر میں پھرتی ہے وہ تیرگی و تنہائی
 لحد کی خاک ہے سرمہ مآل بینوں کو
 
 خیال خاطر احباب چاہیئے ہر دم
 انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 