آگ میں ہم کو جھونکا گیا ظلم کی
سر سے چادر امن کی ہٹالی گئی
قتل کر کے ہمیں دن دھاڑے یہاں
ہاتھ میں خون کی مہندی رچا لی گئی
انگلیاں کاٹ دیں، سر قلم کردیئے
ساکھ دہشت سے اپنی سنبھالی گئی
ہم کو تحقیر کی تلخیاں دیں گئیں
جو شکایت کری ہنس کے ٹالی گئی
چھین کر ہم سے حق زندگی کا یہاں
موت کے رنگ میں ہر سانس ڈھالی گئی
بولنے کی اجازت سے محروم تھے
آہ نکلی تو وہ بھی دبا لی گئی
ہم کو نفرت، تعصب کے طعنے دیئے
برملا ہم کو دی منہ پہ گالی گئی
عزتوں کے جنازے نکالے گئے
آبرو بیچ میداں اچھالی گئی
بڑھتے قدموں کو روکا گیا جبر سے
حق کی سوچوں پہ زنجیر ڈالی گئی
راستہ ظلم سے روک پائے نہ جب
فوج اپنی مدد کو بلا لی گئی
پھر بھی پنجاب تک آگئے ہم اشہر
دیکھ لو حق کی محفل سجا لی گئی