بوٹے سے قد پہ اتنا اُچھلنا عذاب پے
گنجا ہے پھر بھی سرپہ لگاتا خضاب ہے
نخرے دکھائے اتنے کہ الله کی پناہ
اترائے اسطرح سے کہ جیسے نواب ہے
ہم کو تو صبر و زہد کی تلقین ہے مگر
اپنے لیے تو جام میں مہنگی شراب ہے
بھاشن عوام کو یہاں نیکی کے دے کہ خود
جاتا اس جگہ جہاں ملتا شباب ہے
پکڑا نہ جائے پھر سے خیانت کے جرم میں
کرتا یہ جرم منہ پہ لگا کے نقاب ہے
پھر سے یہ اقتدار کے لوٹے مزے کبھی
آنکھوں میں اسکی کب سے سہانا خواب ہے
دعوے کہن زدہ وہی عہد قدیم کے
پھر سے زباں پہ وہ ہی پرانا خطاب ہے
تیرے محل میں پھر سے نئی رونقیں لگیں
میرا یہ دیس آج بھی خانہ خراب ہے
اشہر کا ہر گناہ تو گناہ کبیر ہے
تیری مگر خطاء بھی صریحا ثواب ہے