سراپا رہن عشق و نا گزیر الفت ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
بقدر ظرف ہے ساقی خمار تشنہ کامی بھی
جو تو دریاۓ مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا
ز بس خوں گشتۂ رشک وفا تھا وہم بسمل کا
چرایا زخم ہائے دل نے پانی تیغ قاتل کا
نگاۂ چشم حاسد وام لے اے ذوق خود بینی
تماشائی ہوں وحدت خانۂ آئینۂ دل کا
شرر فرصت نگہ سامان یک عالم چراغاں ہے
بہ قدر رنگ یاں گردش میں ہے پیمانہ محفل کا
سراسر تاختن کو شش جہت یک عرصہ جولاں تھا
ہوا واماندگی سے رہ رواں کی فرق منزل کا
مجھے راہ سخن میں خوف گم راہی نہیں غالب
عصاۓ خضر صحراۓ سخن ہے خامہ بے دل کا