کچھ ایسی نقش ہے دل میں داستانِ کربلا
جھکنے نہیں دیتا غیر کے آگے دھیانِ کربلا
ذبح عظیم کی عملی تفسیر ہیں ابن علی
منیٰ میں ابتداء ہوئی ہے انتہا میدانِ کربلا
درد دل رکھنے والوں کی کمی نہیں آج
چھلک پڑتی ہیں آنکھیں سن کر بیانِ کربلا
پیش آئے ہوئے چاہے بیت گئی ہیں صدیاں
ہوئی ہے نہ ہوگی کسی کو پہچانِ کربلا
لکھ چکے ہیں لکھ رہے ہیں لکھتے رہیں گے
نہیں کرسکے گا مکمل کوئی دیوانِ کربلا
ہمت نہیں رہی دشمن میں مقابلہ کرنے کی
دیکھا جب سنا للکاررہا ہے جوانِ کربلا
ولادت کے ساتھ ساتھ رہے شہادت کے چرچے
مشہورہوگیا تھاحیات حسین میں عنوانِ کربلا
ہرچہرہ غمزدہ تھا ہر آنکھ اشکبارتھی
چلا مدینے سے جب پہنچامدینے کاروانِ کربلا
ملتی ہے سندِاعزازکامیاب ہونے کے بعد
عطاہوئی سند پہلے پھر ہوا امتحانِ کربلا
ملا رتبہ کربلامعلی کا دشتِ کربلا کو
لے آئے تشریف جب اس میں مالکانِ کربلا
عظمت دیکھیے کٹ کر بھی سربلند رہا
حسین کی طرح نہیں جھکے صدیقؔ اسیرانِ کربلا