چل کر درِ رسول پہ آنے کے باوجود
اٹھتی نہیں نگاہ اٹھانے کے باوجود
عشقِ نبی میں لٹنے لٹانے کے باوجود
مٹتا نہیں یہ نقش مٹانے کے باوجود
قرآن ہے گواہ کہ موسا کلیم سے
دیکھا گیا نہ جلوہ دکھانے کے باوجود
سردارِ انبیا کا لقب آپ کو ملا
تشریف سب سے بعد میں لانے کے باوجود
سرکار کو عزیز تھی غربت کی زندگی
ساری خدائی ہاتھ میں آنے باوجود
عرشِ بریں سے بھی تھا تعلق حضور کا
تشریف بزمِ دہر میں لانے کے باوجود
مَیں مطمئن ہوں عشقِ رسولِ انام سے
سرمایۂ حیات لٹانے کے باوجود
جب تک نہ دل لگایا نبی ملا نہ کچھ
سر کو درِ خدا پہ جھکانے کے باوجود
ممکن نہیں کہ پوری نہ ہو آرزوے دل
یعنی درِ رسول پہ جانے کے باوجود
امت پہ اپنی رہتے ہیں ہر وقت مہرباں
سرکار بزمِ دہر سے جانے کے باوجود
مومن نہیں ہے وہ جو نہ دیکھے حضور کو
بزمِ تصورات سجانے کے باوجود
سرکارِ کائنات کے مستوں کو دہر سے
کوئی مٹا سکا نہ مٹانے کے باوجود
مجھ کو مُشاہدؔ اپنی شفاعت کا ہے یقیں
لہو و لعب میں عمر گنوانے کے باوجود