حسین ابن علی نے کیا ہے کاروبار عجب
اس گھرانے میں ہے صبر کا معیار عجب
افسوس کر رہی ہے آج بھی نہر فرات کی
بیٹھے تھے ارد گرد میرے پہریدار عجب
دیتی ہے گواہی ہر دور میں زمین کربلا
دیکھے ہیں شوق شہادت سے سرشار عجب
بچایا اسماعیل کوچھری سے حسین نے
ہوئے عالم ارواح میں قول و اقرارعجب
جاتا ہوں میدان میں کہتا ہے زین العابدین
رہتا ہے اہل بیت کے خیموں میں بیمار عجب
ہیں تازہ ابھی تک زخم دلوں کے صدیق
لگا ہے کرب وبلا میں ظلم کا بازر عجب