قلم میں تاب کیا کہ لکھ سکوں سرکار کی مدحت
بہ فضلِ رب زباں پر ہے شہِ ابرار کی مدحت
جہانِ فکر و فن اُن کا نکھر جائے سنور جائے
کہ جو کرتے ہیں ان کی زلفِ خوشبو دار کی مدحت
دلِ ظلمت زَدا میں نور کا سیلِ رواں اُترے
زباں کرنے لگے جب چہرۂ انوار کی مدحت
لحد اُن کی معطر ہو ، معنبر ہو ، منور ہو
کہ جو کرتے رہیں عرقِ تنِ سرکار کی مدحت
مُشاہدؔ اِک نہ اِک دن روضۂ سرکار دیکھے گا
کیے جا ہر نفَس اُمّت کے اُس غم خوار کی مدحت