سسکتے آب میں کس کی صدا ہے
کوئی دریا کی تہہ میں رو رہا ہے
سویرے میری ان آنکھوں نے دیکھا
خدا چاروں طرف بکھرا ہوا ہے
اندھیری رات کا تنہا مسافر
مری پلکوں پہ اب سہما کھڑا ہے
سمیٹو اور سینے میں چھپا لو
یہ سناٹا بہت پھیلا ہوا ہے
حقیقت سرخ مچھلی جانتی ہے
سمندر کیسا بوڑھا دیوتا ہے
پکے گیہوں کی خوشبو چیختی ہے
بدن اپنا سنہرا ہو چکا ہے
ہماری شاخ کا نوخیز پتا
ہوا کے ہونٹ اکثر چومتا ہے
مجھے ان نیلی آنکھوں نے بتایا
تمہارا نام پانی پر لکھا ہے