سفر خود رفتگی کا بھی عجب انداز تھا
Poet: Zehra Nigah By: Nabeel, khi
سفر خود رفتگی کا بھی عجب انداز تھا
کہیں پر راہ بھولے تھے نہ رک کر دم لیا تھا
زمیں پر گر رہے تھے چاند تارے جلدی جلدی
اندھیرا گھر کی دیواروں سے اونچا ہو رہا تھا
چلے چلتے تھے رہرو ایک آواز اخی پر
جنوں تھا یا فسوں تھا کچھ تو تھا جو ہو رہا تھا
میں اس دن تیری آمد کا نظارہ سوچتی تھی
وہ دن جب تیرے جانے کے لیے رکنا پڑا تھا
اسی حسن تعلق پر ورق لکھتے گئے لاکھ
کرن سے روئے گل تک ایک پل کا رابطہ تھا
بہت دن بعد زہراؔ تو نے کچھ غزلیں تو لکھیں
نہ لکھنے کا کسی سے کیا کوئی وعدہ کیا تھا
More Zehra Nigah Poetry
قربتوں سے کب تلک اپنے کو بہلائیں گے ہم قربتوں سے کب تلک اپنے کو بہلائیں گے ہم
ڈوریاں مضبوط ہوں گی چھٹتے جائیں گے ہم
تیرا رخ سائے کی جانب میری آنکھیں سوئے مہر
دیکھنا ہے کس جگہ کس وقت مل پائیں گے ہم
گھر کے سارے پھول ہنگاموں کی رونق ہو گئے
خالی گلدانوں سے باتیں کرکے سو جائیں گے ہم
ادھ کھلی تکیے پہ ہوگی علم و حکمت کی کتاب
وسوسوں وہموں کے طوفانوں میں گھر جائیں گے ہم
اس نے آہستہ سے زہراؔ کہہ دیا دل کھل اٹھا
آج سے اس نام کی خوشبو میں بس جائیں گے ہم
ڈوریاں مضبوط ہوں گی چھٹتے جائیں گے ہم
تیرا رخ سائے کی جانب میری آنکھیں سوئے مہر
دیکھنا ہے کس جگہ کس وقت مل پائیں گے ہم
گھر کے سارے پھول ہنگاموں کی رونق ہو گئے
خالی گلدانوں سے باتیں کرکے سو جائیں گے ہم
ادھ کھلی تکیے پہ ہوگی علم و حکمت کی کتاب
وسوسوں وہموں کے طوفانوں میں گھر جائیں گے ہم
اس نے آہستہ سے زہراؔ کہہ دیا دل کھل اٹھا
آج سے اس نام کی خوشبو میں بس جائیں گے ہم
ijaz
دیر تک روشنی رہی کل رات دیر تک روشنی رہی کل رات
میں نے اوڑھی تھی چاندنی کل رات
ایک مدت کے بعد دھند چھٹی
دل نے اپنی کہی سنی کل رات
انگلیاں آسمان چھوتی تھیں
ہاں مری دسترس میں تھی کل رات
اٹھتا جاتا تھا پردۂ نسیاں
ایک اک بات یاد تھی کل رات
طاق دل پہ تھی گھنگھروؤں کی صدا
اک جھڑی سی لگی رہی کل رات
جگنوؤں کے سے لمحے اڑتے تھے
میری مٹھی میں آ گئی کل رات
میں نے اوڑھی تھی چاندنی کل رات
ایک مدت کے بعد دھند چھٹی
دل نے اپنی کہی سنی کل رات
انگلیاں آسمان چھوتی تھیں
ہاں مری دسترس میں تھی کل رات
اٹھتا جاتا تھا پردۂ نسیاں
ایک اک بات یاد تھی کل رات
طاق دل پہ تھی گھنگھروؤں کی صدا
اک جھڑی سی لگی رہی کل رات
جگنوؤں کے سے لمحے اڑتے تھے
میری مٹھی میں آ گئی کل رات
abbas
یہ سچ ہے یہاں شور زیادہ نہیں ہوتا یہ سچ ہے یہاں شور زیادہ نہیں ہوتا
گھر بار کے بازار میں پر کیا نہیں ہوتا
جبر دل بے مہر کا چرچا نہیں ہوتا
تاریکئ شب میں کوئی چہرہ نہیں ہوتا
ہر جذبۂ معصوم کی لگ جاتی ہے بولی
کہنے کو خریدار پرایا نہیں ہوتا
عورت کے خدا دو ہیں حقیقی و مجازی
پر اس کے لیے کوئی بھی اچھا نہیں ہوتا
شب بھر کا ترا جاگنا اچھا نہیں زہراؔ
پھر دن کا کوئی کام بھی پورا نہیں ہوتا
گھر بار کے بازار میں پر کیا نہیں ہوتا
جبر دل بے مہر کا چرچا نہیں ہوتا
تاریکئ شب میں کوئی چہرہ نہیں ہوتا
ہر جذبۂ معصوم کی لگ جاتی ہے بولی
کہنے کو خریدار پرایا نہیں ہوتا
عورت کے خدا دو ہیں حقیقی و مجازی
پر اس کے لیے کوئی بھی اچھا نہیں ہوتا
شب بھر کا ترا جاگنا اچھا نہیں زہراؔ
پھر دن کا کوئی کام بھی پورا نہیں ہوتا
babar
ہر خار عنایت تھا ہر اک سنگ صلہ تھا ہر خار عنایت تھا ہر اک سنگ صلہ تھا
اس راہ میں ہر زخم ہمیں راہنما تھا
کیوں گھر کے اب آئے ہیں یہ بادل یہ گھٹائیں
ہم نے تو تجھے دیر ہوئی یاد کیا تھا
اے شیشہ گرو کچھ تو کرو آئنہ خانہ
رنگوں سے خفا رخ سے جدا یوں نہ ہوا تھا
ان آنکھوں سے کیوں صبح کا سورج ہے گریزاں
جن آنکھوں نے راتوں میں ستاروں کو چنا تھا
اس راہ میں ہر زخم ہمیں راہنما تھا
کیوں گھر کے اب آئے ہیں یہ بادل یہ گھٹائیں
ہم نے تو تجھے دیر ہوئی یاد کیا تھا
اے شیشہ گرو کچھ تو کرو آئنہ خانہ
رنگوں سے خفا رخ سے جدا یوں نہ ہوا تھا
ان آنکھوں سے کیوں صبح کا سورج ہے گریزاں
جن آنکھوں نے راتوں میں ستاروں کو چنا تھا
iqbal
نقش کی طرح ابھرنا بھی تمہی سے سیکھا نقش کی طرح ابھرنا بھی تمہی سے سیکھا
رفتہ رفتہ نظر آنا بھی تمہی سے سیکھا
تم سے حاصل ہوا اک گہرے سمندر کا سکوت
اور ہر موج سے لڑنا بھی تمہی سے سیکھا
اچھے شعروں کی پرکھ تم نے ہی سکھلائی مجھے
اپنے انداز سے کہنا بھی تمہی سے سیکھا
تم نے سمجھائے مری سوچ کو آداب ادب
لفظ و معنی سے الجھنا بھی تمہی سے سیکھا
رشتۂ ناز کو جانا بھی تو تم سے جانا
جامۂ فخر پہننا بھی تمہی سے سیکھا
چھوٹی سی بات پہ خوش ہونا مجھے آتا تھا
پر بڑی بات پہ چپ رہنا تمہی سے سیکھا
رفتہ رفتہ نظر آنا بھی تمہی سے سیکھا
تم سے حاصل ہوا اک گہرے سمندر کا سکوت
اور ہر موج سے لڑنا بھی تمہی سے سیکھا
اچھے شعروں کی پرکھ تم نے ہی سکھلائی مجھے
اپنے انداز سے کہنا بھی تمہی سے سیکھا
تم نے سمجھائے مری سوچ کو آداب ادب
لفظ و معنی سے الجھنا بھی تمہی سے سیکھا
رشتۂ ناز کو جانا بھی تو تم سے جانا
جامۂ فخر پہننا بھی تمہی سے سیکھا
چھوٹی سی بات پہ خوش ہونا مجھے آتا تھا
پر بڑی بات پہ چپ رہنا تمہی سے سیکھا
Liaqat
سفر خود رفتگی کا بھی عجب انداز تھا سفر خود رفتگی کا بھی عجب انداز تھا
کہیں پر راہ بھولے تھے نہ رک کر دم لیا تھا
زمیں پر گر رہے تھے چاند تارے جلدی جلدی
اندھیرا گھر کی دیواروں سے اونچا ہو رہا تھا
چلے چلتے تھے رہرو ایک آواز اخی پر
جنوں تھا یا فسوں تھا کچھ تو تھا جو ہو رہا تھا
میں اس دن تیری آمد کا نظارہ سوچتی تھی
وہ دن جب تیرے جانے کے لیے رکنا پڑا تھا
اسی حسن تعلق پر ورق لکھتے گئے لاکھ
کرن سے روئے گل تک ایک پل کا رابطہ تھا
بہت دن بعد زہراؔ تو نے کچھ غزلیں تو لکھیں
نہ لکھنے کا کسی سے کیا کوئی وعدہ کیا تھا
کہیں پر راہ بھولے تھے نہ رک کر دم لیا تھا
زمیں پر گر رہے تھے چاند تارے جلدی جلدی
اندھیرا گھر کی دیواروں سے اونچا ہو رہا تھا
چلے چلتے تھے رہرو ایک آواز اخی پر
جنوں تھا یا فسوں تھا کچھ تو تھا جو ہو رہا تھا
میں اس دن تیری آمد کا نظارہ سوچتی تھی
وہ دن جب تیرے جانے کے لیے رکنا پڑا تھا
اسی حسن تعلق پر ورق لکھتے گئے لاکھ
کرن سے روئے گل تک ایک پل کا رابطہ تھا
بہت دن بعد زہراؔ تو نے کچھ غزلیں تو لکھیں
نہ لکھنے کا کسی سے کیا کوئی وعدہ کیا تھا
Nabeel






