سلسلےجو محبتوں کے ہیں
مرحلے سارے اذیتوں کے ہیں
یہ کسک، درد،یہ تڑپ میری
زخم انکی عنایتوں کے ہیں
آپ ہی آپ لب جو کھلتے ہیں
شعبدے انکی فرقتوں کے ہیں
شور برپا ہے محفل دل میں
ذکر انکی عداوتوں کے ہیں
آرزو بھی انہی کی ہے ہمکو
بے وفا وہ جو مدتوں سے ہیں
رکھنا اپنا قدم سنبھل کے یہ
راستے سارے وحشتوںکےہیں
ہے شکایت ، گلے بہت ان سے
واسطے دل کی حسرتوںکےہیں
شام گذرے ہے ہجر میں تیر ے
آہ!دن بھی قیامتوں کے ہیں
دل کو سمجھایا تھابہت ہم نے
سب تعلق ضرورتوں کے ہیں
کوئ اپنی ہی ہے تقصیر غزل
ڈالتے دوش قسمتوں کے ہیں